امیرالہند
حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ
اور دارالعلوم
دیوبند
از: توحید عالم بجنوری، استاذ عربی
دارالعلوم دیوبند
امیر الہند
ثالث اور دارالعلوم دیوبند کے آٹھویں مہتمم عارف باللہ حضرت اقدس مولانا
مرغوب الرحمن صاحب قَدَّسَ اللہ سِرَّہ وَبَرَّدَ مَضْجَعَہ نے ازہر ہند مادر علمی
دارالعلوم دیوبند کی تقریباً نصف صدی تک خدمت انجام دی
جس میں ابتدائی بیس سال مجلس شوریٰ کے موٴقر
رکن رکین کی حیثیت سے اپنے مفید اور قیمتی
مشوروں سے دارالعلوم کی آبیاری میں وافر حصہ لیا
پھراجلاس صد سالہ کے بعد حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب
رحمة اللہ علیہ کے معاون مہتمم کی حیثیت سے ایک سال
خدمت میں مصروف عمل رہے ۔ اسی اثنا میں مادر علمی کی
نشاۃ ثانیہ ہوئی، لہٰذا
حضرات اراکین شوریٰ نے جو اپنے وقت کی نامور ہستیاں
اور جیالِ علوم نقلیہ وعقلیہ شخصیات تھیں مثلاً
محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رحمة اللہ علیہ،
حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب جونپوری رحمة اللہ علیہ، حضرت
مولانا منظور احمد صاحب نعمانی رحمة اللہ علیہ، حضرت مولانا سید
علی میاں صاحب ندوی رحمة اللہ علیہ اور حضرت مولانا سعید
احمد صاحب اکبر آبادی وغیرہ۔ ان تمام پاک باز اور پاک خصلت شخصیات
نے مادر علمی کے اہتمام کا تاج ایک ایسے قلندر صفت انسان کے
سرپر رکھا جو نظم وانتظام کے تجربے،تقریر و تحریر کے میدان اور
درس وتدریس کی مسند سے یک گونہ بے تعلق تھا اور زمانہ بھی
قحط الرجال کا نہیں تھا کیوں کہ خود حضرات اراکین میں
اکثریت یگانہٴ روزگار اور عبقری شخصیات کی تھی
اسی لیے بعض زبانیں اور بہت سے قلم حیرانی کااظہار
کررہے تھے، لیکن آج جب وہی مرد گمنام اپنے دورِ اہتمام کے تیس
سال مکمل کرکے اپنے خالق حقیقی سے جاملا اور اکابر واسلاف کے پہلو میں
جاسویا تو آج اپنے ہی نہیں بلکہ غیر بھی اور حضرت
کے متعلقین ومداح ہی نہیں بلکہ ناقدین بھی اس بات
کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ پارہے ہیں کہ دارالعلوم نے جس بے
داغ انداز سے تعلیمی انہماک اور تسلسل کو باقی رکھتے ہوئے اس تیس
سالہ مدت میں ہمہ جہت ترقیات کے جو زینے طے کئے ہیں شاید
ہی کوئی دوسری شخصیت اس خوش اسلوبی اور حسن تدبیر
وانتظام سے اس پرخار اور دشوار گزار راہ پر گامزن رہتے ہوئے وہ کارہائے نمایاں
انجام دے پاتی۔
حضرت کے عہد
اہتمام میں دارالعلوم کی ترقیات
اس تیس سالہ
دور میں مادر علمی نے ہمہ جہت ترقی کی ہے۔ تعلیمات
ہو یا تعمیرات، مالیات کی فراہمی ہو یا
طالبانِ علوم دینیہ کی کثرت، پورے ہندوستان کے مدارس اسلامیہ
کو باہم مربوط رکھنے کے لیے رابطہ مدارس اسلامیہ کا قیام ہو یا
فرقِ باطلہ کا منھ توڑ جواب دینے کے لئے محاضراتِ علمیہ کا سلسلہ اور
ترقیات کا یہ اجمالی خاکہ تھا جس کی تفصیل کچھ یوں
ہے۔
تعلیمات
دارالعلوم کا بنیادی
کام عربی دینیات کے میدان کے شہسوار پیداکرنا ہے لہٰذا
تعلیمی بیداری اور طلبہ کی استعداد سازی پر
حضرت قدس سرہ خصوصی توجہ فرماتے تھے اور اسباق کے تسلسل اور تعلیمی
انہماک میں چستی پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش فرماتے تھے ازیں
وجہ طلبہ کی حاضرباشی کے لیے جو ازحد ضروری اور ناگزیر
ہے ایک انعامی سلسلہ شروع فرمایا کہ پورے سال حاضری کا ریکارڈ
بنانے والے تشنگانِ علم کو ایک ہزار روپئے کا نقد انعام دیتے تھے ۔
تعلیمات کے تین امتحانات کو ختم کرکے دو امتحانات کرانے کی پہل
کی اور دونوں امتحانوں کو چست اور مستحکم فرمایا، البتہ اوّل عربی
تا سوم عربی کے طلبہ کی استعداد کو ٹھوس اور مضبوط کرنے کے لیے
ماہانہ اور سہ ماہی امتحانات کا سلسلہ شروع کیاگیا جس کا خاطر
خواہ فائدہ سامنے آرہا ہے۔ نیز امتحانات کی کاپیاں کوڈ
نمبرات کے ساتھ جانچ کے لیے جانچ کنندہ حضرات کو دینے کی طرح
ڈالی تاکہ امتحانات تمام تر شبہات سے پاک اور شفاف ہوں۔
حضرت نور اللہ
مرقدہ کے عہد اہتمام میں جو نئے شعبے قائم کئے گئے ان کی تفصیل یہ
ہے:
(۱) تخصص فی الحدیث: اس شعبہ میں ہر سال پانچ ایسے
فضلاء دارالعلوم کا داخلہ ہوتا ہے جو دورهٴ حدیث شریف میں
اعلیٰ سے اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہوئے ہوں نیز
جو طلبہ تکمیل ادب عربی میں ممتاز نمبرات لاچکے ہوں ان کو ترجیح
دی جاتی ہے سال اول میں ان کی کارکردگی اطمینان
بخش ہونے کی صورت میں سالِ دوم میں ترقی دی جاتی
ہے۔
(۲) شعبہٴ ختم نبوت: اس شعبہ میں چار فضلاء دارالعلوم کا داخلہ
ہوتا ہے جو سالانہ امتحان میں اوسط نمبرات سے کامیاب ہوئے ہوں ان طلبہ
کو موضوع سے متعلق تحریری و تقریری مشق کرائی جاتی
ہے۔
(۳) شیخ الہند اکیڈمی: اس شعبہ میں فضلاء دارالعلوم میں
سے آٹھ طلبہ کا داخلہ ہوتا ہے اور ان طلبہ کو مضمون نگاری اور مقالہ نویسی
کی مشق و تمرین کرائی جاتی ہے۔
(۴) شعبہٴ رد عیسائیت: اس شعبہ میں خوش بخت صرف دو
طلبہ کا داخلہ ہوتا ہے جو سالانہ امتحان میں اوسط نمبرات سے کامیاب
ہوئے ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق تحریری
و تقریری جائزہ میں کامیاب ہوئے ہوں۔
(۵) شعبہ تحفظ سنت: غیرمقلدین کی بڑھتی ہوئی
مونھ شگافیوں سے عوام کو روشناس کرانے کے لیے افراد سازی ناگزیر
اور ضروری تھی، لہٰذا اس شعبہ کا قیام عمل میں آیا
اور موضوع سے متعلق فضلاء میں اس قدر استعداد پیدا کی جاتی
ہے کہ وہ جس علاقہ میں کام کریں عوام کو غیرمقلدین جیسی
غالی جماعت اور ان کے گمراہ کن پروپیگنڈوں سے متنبہ کرتے رہیں۔
(۶) شعبہٴ تدریب المعلّمین: اس شعبہ میں ہر سال ایسے
چار خوش نصیب فضلاء کا انتخاب ہوتا ہے جو اعلیٰ نمبرات سے کامیاب
ہوئے ہوں نیز مجلس تعلیمی کے انٹرویو میں کامیاب
قرار دئے گئے ہوں ، ان فضلاء کو دو سال تک تین ہزار روپئے قیام وطَعام
کے ساتھ وظیفہ کی شکل میں دئے جاتے ہیں۔
(۷) شعبہٴ انگریزی زبان وادب: اس شعبہ میں داخلہ کے امیدوار
طلبہ کا حدیث، تفسیر، فقہ اور عربی زبان کا امتحان تحریری
اور تقریری لیاجاتا ہے کامیاب پندرہ طلبہ کا انتخاب عمل میں
آتا ہے۔
(۸) شعبہ کمپیوٹر: اس شعبہ میں ہر سال بیس طلبہ کا داخلہ
ہوتا ہے جو طلبہ اس شعبہ کے امیدوار ہوتے ہیں ان کو انگریزی،
ہندی اور حساب کے مبادیات میں سوجھ بوجھ ضروری ہے۔
(۹) مدرسہ ثانویہ: مادرعلمی کی نشاة ثانیہ سے قبل
دارالعلوم میں عربی چہارم تک کی تعلیم برائے نام تھی
اور توجہ مکمل اوپر کی تعلیم پر تھی لہٰذا پورے ہندوستان
میں بالعموم اور مغربی اترپردیش میں بالخصوص یہ بات
مشہور تھی کہ دارالعلوم دیوبند میں سال پنجم عربی سے
داخلہ لینا چاہئے کیونکہ وہاں ابتدائی تعلیم پر توجہ نہیں
ہے، لیکن اس تیس سالہ دور میں اس طرف بھی توجہ ہوئی
اور مدرسہ ثانویہ کے نام سے ابتدائی تعلیم کو مستقل کیاگیا
اور اس پر خاص توجہ مرکوز ہوئی جس کا ثمرہ یہ ہے کہ عربی اوّل
سے عربی چہارم تک کے امیدواروں کی تعداد داخلہ کے وقت سیکڑوں
سے متجاوز ہوکر ہزاروں میں پہنچ جاتی ہے اور چار سو سے زیادہ
تشنگانِ علوم دینیہ اپنی علمی پیاس بجھانے میں
مصروف ہیں۔
(۱۰) دارالقرآن: شعبہٴ تحفیظ القرآن اور ناظرہٴ
قرآن کریم کا حال بھی عربی ابتدائی سے دیگر نہ تھا،
لہٰذا یہ شعبہ بھی توجہ تام چاہتاتھا جس کو حضرت رحمة اللہ علیہ
اور آپ کے شرکاء کار حضرات نے محسوس فرماکر اس کے لیے دارالقرآن کے نام سے ایک
تعلیم گاہ متعین فرمائی اور جس شعبہ میں دوچار اساتذہ سے
زائد نہ تھے وہاں آج بیس اساتذئہ کرام خدمتِ قرآن کریم میں
مشغول ومصروف ہیں۔
حضرت نور اللہ
مرقدہ کے عہد اہتمام میں تعمیرات کے حوالہ سے ترقیات
حضرت امیرالہند
ثالث کا عہداہتمام دارالعلوم کی عمر مسعود کا ایک خُمُسْ(پانچواں حصہ)
ہوتا ہے کیونکہ قیام دارالعلوم کو ایک سو انچاس (۱۴۹) سال ہورہے، جس میں تیس سال کے قریب
حضرت کا عہد اہتمام ہے اس مختصر دور میں مادرعلمی نے جو تعمیری
ترقیاں کی ہیں وہ ایک کرامت سے کم نہیں مثلاً: (۱) جامع رشید کی وہ پرشکوہ عمارت جو دنیا کی چندگنی
چنی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ (۲) شیخ
الہند منزل (اعظمی منزل) کی سہ منزلہ عمارت جو تقریباً ساٹھ بڑے
کمروں پر مشتمل ہے (۳)
شیخ الاسلام منزل (آسام منزل) بھی سہ منزلہ
ہے جو ایک سو بیس بڑے ہال نما کمروں پر مشتمل ہے (۴) حجة الاسلام منزل (مدرسہ ثانویہ) کی دو منزلہ عمارت ہے جس میں
شعبہٴ اطفال، اردو ہندی پرائمری تا فارسی پنجم اور عربی
اوّل تاعربی چہارم کی مکمل درسگاہیں ہیں جن میں تقریباً
پانچ سو نونہالانِ ملت اپنی علمی تشنگی دور کررہے ہیں (۵) حکیم الامت منزل (دارالقرآن) کی سہ منزلہ عمارت جس میں
تحفیظ القرآن اور ناظرہٴ قرآن کریم کی تقریباً پچیس
درسگاہیں اور ان سے متعلق اساتذہ کرام اور طلبہ عزیز کی قیام
گاہیں، ایک بڑا ہال جو جماعت خانے کے طورپر استعمال ہوتا ہے اور دفتر
وغیرہ ہیں (۶)
دارالمدرسین کی دو منزلہ عمارت جس میں
آٹھ اساتذہٴ کرام کے اہل خانہ کے ساتھ قیام کا آرام دہ انتظام ہے (۷) رواقِ خالد کی درمیانی تحتانی منزل کے استثناء کے
ساتھ تینوں عمارتیں جو پچاس سے زائد کمروں پر مشتمل ہیں (۸) دارالقرآن قدیم کے اوپر اساتذہٴ کرام کے پانچ پرسکون گھر اور
ان سے ملحق دارالاقامہ کے چند کمرے (۹) دارجدید کی نئی عمارت جو تاہنوز ساٹھ
بڑے ہال نما کمروں پر مشتمل ہے جس میں عزیز طلبہ کی سہولت کے لیے
سمینٹیڈ بیڈ بنائے گئے ہیں (۱۰) جامع رشید کے سامنے مکتبہ دارالعلوم، عظمت ہسپتال، ریلوے ٹکٹ
گھر، بینک کی شاخ اور اے، ٹی، ایم کے لیے پانچ بڑی
دوکانیں ہیں جو طلبہ کے لیے نہایت درجہ مفید ہیں
(۱۱) دفتر تعلیمات کی عمارت جو پانچ ہال نما
کمروں پر مشتمل ہے (۱۲)
احاطہٴ مولسری کی تزئین (۱۳) مہمان خانہ کی تجدید وتوسیع (۱۴) دارالاہتمام کی تزئین (۱۵) مسجد قدیم کی تزئین (۱۶) مسجد چھتہ کی تزئین (۱۷) پانی کی موجودہ دونوں ٹنکیاں (۱۸) شیخ الہند لائبریری کی وہ بے مثال عمارت جو قریب
قریب تعمیر کے نصف مراحل سے متجاوز ہے اور ایک شاہکار عمارت کا
مقام حاصل کرے گی (۱۹) دارالحدیث تحتانی
میں ٹائلس وغیرہ سے تزئین کاری۔ نیز بہت سی
آراضی کی خریداری وغیرہ۔
شعبہٴ تنظیم
وترقی میں استحکام
مادرعلمی کی
نشاةِ ثانیہ سے قبل دارالعلوم کا صرفہ پچاس لاکھ روپئے سے کم تھا اور حضرت
اقدس رحمة اللہ علیہ کے عہد اہتمام کے تیس سالہ دور میں یہ
صرفہ بڑھ کر ساڑھے تیرہ کروڑ سے متجاوز ہے نیز حضرت سے قبل شعبہٴ
تنظیم وترقی کل صرفہ کا ایک تہائی بھی جمع نہیں
کرپاتا تھا اسی لیے بہت سی الجھنیں اور دشواریاں پیش
آتی تھیں، لیکن حضرت نوراللہ مرقدہ نے اس جانب خصوصی توجہ
فرمائی، سفراء کی تعدادمیں غیرمعمولی اضافہ کیا
جن کی تعداد فی الوقت پچاس ہے۔ نیز سفراء میں تقابل
وتنافس پیدا کرنے کے لیے زیادہ وصول کرنے والے یا زیادہ
اضافہ کرنے والے کو سالانہ انعام سے نوازا جس کی بدولت آج الحمدللہ مادر علمی
میں صرف ہونے والے کل صرفہ کے دو تہائی سے زیادہ کا شعبہ تنظیم
و ترقی کفیل ہے جو مادر علمی کے لیے ایک خوش آئند
بات ہے۔
طالبانِ علوم دینیہ
کی کثرت
حضرت امیر
الہند رحمة اللہ علیہ کے اہتمام کی باگ ڈور سنبھالنے سے پہلے مادر علمی
میں تشنگانِ علوم کی تعداد سترہ اٹھارہ سو سے زائد نہ تھی لیکن
حضرت رحمة اللہ علیہ کی جہد مسلسل اور نہ رکنے والی کوششوں کا
ثمرہ ہے کہ آج وارثین انبیاء کی تعداد دوگنا سے متجاوز ہوتے
ہوئے تقریباً چار ہزار ہے۔
رابطہ مدارس اسلامیہ
حضرت رحمة اللہ علیہ
جس طرح ہمہ وقت دارالعلوم کو ہر نہج سے بام ثریا تک پہنچانے کی تگ و
دو میں مصروف رہتے تھے اسی طرح ملت اسلامیہ کا درد بھی
حضرت کو ہمیشہ دامن گیر رہتا تھا، لہٰذا حضرت اہل علم کی
آراء اور مشوروں میں اگر ذرہ برابر بھی خیر محسوس کرتے تو فوراً
اس پر عمل درآمد کرنے کا حکم فرماتے اسی لیے جب پورے ہندوستان کے
مدارسِ اسلامیہ کو باہم مربوط کرنے کا مسئلہ سامنے آیا کہ ملت اور قوم
کے اتحاد کی ایک بہترین صورت ہے تو حضرت نے بخوشی اس کی
تصویب فرمائی اور دارالعلوم کے پلیٹ فارم سے ایک فعال اور
متحرک تحریک اور تنظیم بنام کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ کے قیام
کی اجازت فرمائی اور قیام کے وقت سے تازیست تنظیم کی
صدارت اور سرپرستی فرماتے رہے جو حقیقتاً پوری ہندوستانی
ملت کی فراموش نہ ہونے والی خدمت ہے۔
فرقِ باطلہ کا
تعاقب
عہد نبوت و رسالت
سے دوری اور بعد کی وجہ سے خیرمعدوم ہوتی جارہی ہے
اور باطل اور شر اپنے بال وپر نکالنے میں ایڑی چوٹی کا
زور صرف کررہا ہے، لہٰذا دورِ حاضر میں باطل نام نہاد مسلمانوں کے روپ
میں اسلامی لبادہ اوڑھ کر قصر اسلام کو نقصان پہنچانے کی ناکام
کوشش میں مصروف ہے پس مدارس اسلامیہ کی یہ ذمہ داری
ہوجاتی ہے کہ اپنے فضلاء اور فرزندان اسلام کو ایسے ہتھیاروں سے
لیس اور آراستہ کریں جن کے ذریعہ وہ اہل ہوا وہوس باطل فرقوں کا
دنداں شکن اور منھ توڑ جواب دے سکیں۔ چنانچہ ام المدارس ازہر ہند
دارالعلوم دیوبند نے سب سے پہلے اس ذمہ داری کو قبول کرتے ہوئے
محاضراتِ علمیہ کا سلسلہ شروع فرمایا جس کے لیے حضرت رحمة اللہ
علیہ نے موٴقر اساتذہٴ کرام سے سات عنوانات پر علمی
محاضرات تیار کرائے اور ہر موضوع سے متعلق چار چار پانچ پانچ چھوٹے چھوٹے
رسالے تیار کئے گئے جن کوہرہفتہ جمعرات کے دن حضرات اساتدہٴ کرام طلبہ
عزیز کے سامنے پیش فرماتے ہیں تکمیلات کے تمام طلبہ ان میں
شرکت کرتے ہیں سال کے اخیر میں امتحان ہوتا ہے اور کامیاب
فضلاء کو فن مناظرہ سے متعلق گرانقدرعلمی کتابوں کا انعام سند محاضرات کے
ساتھ دیا جاتا ہے اوراس سلسلہ محاضرات کا فائدہ اہل علم کھلی آنکھوں دیکھ
رہے ہیں۔
حرفِ آخر
حضرت عارف باللہ
مولانا مرغوب الرحمن صاحب نور اللہ مرقدہ کو دارالعلوم سے عشق کی حد تک محبت
اور والہانہ عقیدت تھی اسی لیے ہر موقع پر دارالعلوم کا
مفاد مقدم رہتا تھا اوراس سلسلہ میں کبھی کسی سے نہ سمجھوتہ کیا
اورنہ کسی ملامت گر کی ملامت کا اندیشہ مدنظر رکھا اسی لیے
محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب دامت برکاتہم
صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند نے تعزیتی اجلاس میں
فرمایا تھا کہ حضرت سخاوت اور بخل دو متضادصفات سے بیک وقت متصف تھے یعنی
حضرت سخی اور بخیل بیک وقت ہوتے تھے۔ یعنی
ذاتی زندگی میں اوراپنی جیب خاص سے خرچ کرنے میں
حاتم وقت تھے، البتہ مادر علمی کے مالیات کے سلسلہ میں بخل آپ
کا وصف مشہور تھا۔ حضرت رحمة اللہ علیہ امانت ودیانت کے اس مقام
پر فائز تھے کہ شاید ہی دورِ حاضر میں کوئی نظیر
ومثال مل سکے، مادر علمی دارالعلوم کے مفاد میں جہد مسلسل، سعی
پیہم اور ناتھکنے والا عزم رکھتے تھے۔ ساتھ ہی اپنی
جدوجہد اور کوششوں کو کچھ نہ جانتے ہوئے خداوند قدوس سے گڑگڑاکر اور دیر تک
رو، رو کر دعائیں مانگنا بھی آپ کا ایسا مسلسل عمل تھا کہ بعض
حضرات کہتے تھے کہ دارالعلوم تو حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی دعاؤں کی
بدولت چل رہا ہے جیسا کہ محدثِ وقت استاذ محترم حضرت اقدس مولانا ریاست
علی صاحب دامت برکاتہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے تعزیت
کے جلسہ میں فرمایا تھا۔ حضرت مہتمم صاحب رحمة اللہ علیہ
ایسے خانوادہ کے چشم وچراغ تھے جو پشتہا پشت سے رئیس اور زمین
دار چلا آرہا ہے اور صاحب ثروت گھرانے کے افراد میں نمایاں ہونے کا
جذبہ فطری ہوتا ہے لیکن حضرت فروتنی اور نفس کشی کے امام
تھے لہٰذا ہم خردوں اور خوشہ چینوں کے لیے حضرت کی زندگی
مشعل راہ ہے خداوند عالم ہم سبھی کو حضرت کے نقش قدم پر زندگی گزارنے
کی توفیق نصیب فرمائے اور حضرت کوکروٹ کروٹ چین وسکون عطا
فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام ومرتبہ
عنایت فرمائے اور تمام سوگواروں کو صبر جمیل کی دولت مرحمت
فرمائے، آمین ثم آمین۔
٭٭٭
-------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1-2 ،
جلد: 95 ، صفر، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری، فروری 2011ء